Close

محمد پرویز مسعود کئی بار پنجاب کے چیف سیکرٹری اور چیئرمین لاہور جمخانہ کلب  رہے ہیں، وہ چیف سیکرٹری تھے تو ان کا دفتر ہر خاص و عام کے لئے کھلا رہتا تھا،ان کا رعب اور دبدبہ بہت زیادہ تھا،مگر ان کی شفقت بھی دیدنی ہوتی تھی،ملنے والے افسروں اور لوگوں کی بات سنتے،کئی افسروں کو ڈانٹ پلاتے، مگر کام کا مثبت پہلو نکالتے،اب ان جیسے افسر اور انسان چراغ لے کر بھی ڈھونڈیں تو کم ہی ملیں گے،90ء کی دہائی   میں نوائے وقت کی طرف سے میں،بیورو کریسی، اسٹیبلشمنٹ اور سول سیکریٹریٹ کے امور کی رپورٹنگ پر مامور تھا اور ہفتے میں کئی بار ان سے ملنا،ان کے دفتر میں کافی پینا میرا معمول تھا،بہت شفقت کرتے،میرے سوالات کا بڑے پیار سے جواب دیتے۔ ایک دفعہ میں نے پوچھا سر،سینئر وفاقی افسر پنجاب سے مرکز یا دوسرے صوبوں میں جانا کیوں پسند نہیں کرتے، حالانکہ یہ ان کی سروس کا حصہ ہے تو ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ اس کی تین وجوہات ہیں،لاہور جمخانہ کلب،ایچی سن کالج اور جی او آرز،اب شاید حالات بدل چکے ہیں، مگر جمخانہ کلب کی اہمیت اور چارم اب بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

آپ دیہات میں چلے جائیں تو وہاں ”ڈیرہ“ سسٹم ہوتا ہے،جہاں لوگ مل بیٹھ کر خوش گپیاں، مختلف سرگرمیاں اور بسا اوقات وقت گزاری کرتے ہیں، جبکہ شہر میں یہی ڈیرہ سسٹم ”کلب“ میں بدل جاتا ہے۔ مقصد دونوں کا ایک ہی ہوتا ہے، صرف سہولیات میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ ہر شہر میں چھوٹے بڑے کلب موجود ہیں، مثلاًلاہور جیسے تاریخی شہر میں جمخانہ کلب، رائل پام گالف اینڈ کنٹری کلب، ائیر فورس کلب، گیریژن کنٹری کلب اور پریس کلب  میں ہمہ وقت رونقیں بحال رہتی ہیں،مگر  لاہور جمخانہ کلب کی بات ہی اور ہے، کلب کا ممبر ہونے کے ناتے، دوستوں اور فیملی کے ساتھ ہفتے میں دو چار دن یہاں آنا ہی ہوتا ہے، لیکن گزشتہ ایک ماہ سے آنا جانا زیادہ لگا رہا، جس کی بڑی وجہ یہاں کے سالانہ الیکشن تھے۔اِس بار بھی یہ انتخاب بہت پُرامن ہوا جس میں عدلیہ،بیورو کریسی، صنعت و تجارت،سیاست  اور دیگر شعبوں کی ممبر شخصیات نے ووٹ ڈالا، فتح سلمان صدیق و میاں مصبا ح گروپ کا مقدر ٹھہر ی اور سلمان صدیق ایک بار پھر چیئرمین لاہور جمخانہ منتخب ہوگئے، سلمان صدیق سب سے پہلے  اس وقت  لاہور جمخانہ کے چیئرمین بنے تھے جب وہ چیف سیکرٹری پنجاب تھے اور انہوں نے اس تاریخی کلب پر چھائے ہوئے جمود کو نہ صرف توڑا بلکہ اسے ایک حد تک عوامی ٹچ بھی دیا،ان سے پہلے اس کلب کی ممبرشپ بیوروکریٹس اور چند بڑے خاندانوں تک محدود تھی  عام لوگوں کے لئے یہ ایک شجر ممنوعہ تھی اور لوگ اس کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے کوئی دوسری ہی دنیا سمجھتے تھے۔اس کلب کے ہر چیئرمین نے اپنی بساط کے مطابق کلب کو بہتر بنایا،میاں مصباح الرحمنٰ،کامران لاشاری،ڈاکٹر جواد اور دوسرے بے شمار نام اس میں شامل ہیں۔حالیہ الیکشن سے پہلے کلب ممبرز میں سلمان صدیق کو ایک بار پھر لانے کی ایک تحریک تھی اور کہا جا رہا تھا کہ اس کلب کو سلمان صدیق کی ضرورت ہے،سلمان صدیق کو اس کلب کی چیئرمینی کی ضرورت نہیں ہے۔کلب ممبرز نے اس بات کو سچ ثابت کیا اور ایک بار پھر ان کے گروپ کو بڑی اکثریت دی اور بارہ میں سے ان کے دس امیدوار جیت گئے،وہ قابل اور کرشماتی شخصیت کے مالک، جبکہ میاں مصباح کا ساتھ سونے پہ سہاگہ ہے،اُمید ہے دونوں  پہلے کی طرح اس کلب اور ممبران کے لئے مثبت اقدامات کرتے رہیں گے۔سلمان صدیق ایک محبت اور شفقت کرنے والے اچھے انسان ہیں،وہ پنجاب میں ڈپٹی کمشنر،کمشنر،سیکرٹری رہے،مگر انہوں نے چیف سیکرٹری اور چیئرمین جمخانہ کی حیثیت سے بہت عزت سمیٹی، الیکشن میں ان سمیت جیتنے والے واجد عزیزخان، میاں مصباح الرحمن، سرمد ندیم، میاں پرویز بھنڈارہ، سمیرا نذیر،سردار قاسم فاروق،خواجہ عمران زبیر،میاں وقار الدین اور شوکت جاوید کا تعلق سلمان صدیق/میاں مصباح پینل سے ہے، جبکہ ڈاکٹر علی رزاق اور قمر خان بوبی کا تعلق ڈاکٹر علی رزاق پینل سے ہے۔ڈاکٹر علی رزاق نے اس الیکشن میں بھی سب سے زیادہ ووٹ لینے کا ریکارڈ برقرار رکھا ہے،وہ گزشتہ الیکشن میں سلمان صدیق/میاں مصباح پینل کے ساتھ تھے اور انہوں نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے،ان کے کچھ دوستوں نے انہیں یہ باور کرایا تھا کہ وہ بڑے مقبول ہیں اب انہیں چیئرمین کا امیدوار ہونا چاہئے اور انہوں نے اپنا نیا گروپ بنا لیا،وہ خود تو ایک بار پھر سب سے زیادہ ووٹ لے گئے، مگر اپنے گروپ کو نہ جتوا سکے اور ان کے حصے میں 12میں سے دو ممبرز ہی آئے

انہوں نے کلب میں تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا، مگر ان کا یہ نعرہ قبولیت نہ پا سکا، جبکہ ان کے سپورٹرز کا کہنا ہے کہ انہوں نے سٹیٹس کو ختم کرنے کے لئے پہلی اینٹ رکھ دی ہے جس کے ثمرات آئندہ سالوں میں سامنے آئیں گے۔سلمان صدیق نے کہا ہے کہ ان کا پینل سینئرز اور جونیئرز کا بہترین امتزاج ہے، جو کلب کی بہتری اور ممبرز کی فلاح کے لئے کام کرے گا،ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے، میاں مصباح الرحمن نے کہا کہ لاہور جمخانہ ایشیاء کا سب سے بہترین کلب ہے ان کا گروپ اسے مزید بہتری کی طرف لے کر جائے گا۔ 

جمخانہ اور اس کی تاریخ کے حوالے سے بات کریں تو اس وقت پورے پاکستان میں اس سے بہتر کلب نہیں ملے گا، ویسے تو  یہ کلب انگریز دور میں، یعنی 1878ء میں بطور سپورٹس کلب بنایا گیا تھا، جس میں گالف، سویمنگ، کرکٹ، سکواش، ٹینس، سنوکراور جم وغیرہ جیسی سہولیات رکھی گئیں، لیکن 1906ء میں یہ جمخانہ کلب میں بدل گیا، 1981ء میں اس کی نئی عمارت کی تعمیر و مرمت کا کام شروع ہوا۔اس کی تاریخی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں  کہ یہ کلب پاکستان میں ہی نہیں،بلکہ بھارت کے لئے بھی خاص اہمیت رکھتا ہے، جیسے6ستمبر 1965ء کی صبح منہ اندھیرے بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو اس خوش فہمی میں بھارتی افواج کے کمانڈر انچیف نے یہ اعلان کر دیا کہ وہ آج لاہور جمخانہ میں محفل سجائیں گے، مگر صرف ایک سو دس جوانوں نے لاہور پر قبضہ کرنے والا وہ بھارتی خواب ہی ملیا میٹ کر دیا۔

 آج اس کلب میں سات آٹھ  ریستوران ہیں، ورزش کے لئے بہترین جم ہے،18ہولز کا گولف کورس، ٹینس کورٹس،سیومنگ پول، کارڈ ز روم اور بلیئرڈ روم ہے،ان کے علاوہ بھی مثالی سہولیات ہیں،عمر رسیدہ ممبران نے کلب کو سیکنڈ ہوم کا درجہ دے رکھا ہے، وہ دوپہر کو یہاں آ کر رات گئے گھروں کو لوٹتے ہیں۔

جمخانہ گولف کلب دنیا کے بہترین گولف کورسز میں سے ایک ہے، کرکٹ گراؤنڈ پاکستان کی سب سے پرانی اور برصغیر کی دوسری سب سے پرانی گراؤنڈ مانی جاتی ہے،اس گراؤنڈ کو باقاعدہ ٹیسٹ سنٹر کا اعزاز اس وقت حاصل ہوا جب 1955ء میں پاکستان اور انڈیا کی ٹیموں کے درمیان ٹیسٹ میچ کھیلا گیا، اُمید ہے سلمان صدیق کی قیادت میں نئی منتخب شدہ باڈی اس کلب کی اہمیت اور خوشبو کو  برقرار رکھے گی

Leave A Reply

Exit mobile version