علی احمد ڈھلوں
حکومت نے ڈیڑھ لاکھ آسامیاں ختم اور کئی ادارے ایک دوسرے میں ضم کرنے کا اعلان کر دیا ہے،،،“یہ خبر پڑھ کر تو میں ایک بار چونک گیا، کہ واقعی کچھ اچھی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں، لیکن بدلے میں ہمارے ”ساہو کار“ ڈیپارٹمنٹ ایف بی آر نے ایک ہزار سے زائد گاڑیاں خریدنے کا اعلان کر دیا ہے،،، بچپن میں ہم اپنے بڑوں سے اکثر کہا کرتے تھے کہ میں فلاں کام اُس وقت کروں گا یا گھر کا سودا سلف اُس وقت لا کر دوں گا جب مجھے نئی سائیکل خرید کر دیں گے۔ پھرلڑکپن میں آئے تو موٹر سائیکل کی ڈیمانڈ شروع کردی،،، بدلے میں گھر والے بھی چاہتے نہ چاہتے ہوئے ڈیمانڈز پوری کرتے اور ہم اپنی ”بلیک میلنگ “ پر رشک کرتے ۔ لیکن شرمندگی کو ذرا بھی پاس نہ آنے دیتے۔ بالکل اُسی طرح جس طرح ہمارے ٹیکس کولیکٹر ادارے FBRکو ان برے حالات میں گاڑیاں خریدتے ہوئے شرمندگی اور کسی قسم کا عار محسوس نہیں ہورہا۔ یہ گاڑیاں 6ارب روپے سے زائد کی ہیں،،،اور ان کے سالانہ فیول چارجز اور maintenanceچارجز ڈیڑھ ارب روپ سے زائد کے ہوں گے۔
جبکہ آپ ایف بی آر کی پچھلے سال کی کارکردگی رپورٹ ملاحظہ فرمائیں کہ گزشتہ سال شائع ہونے والی آڈٹ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر میں مالی سال 2021-22میں 425ارب47کروڑ روپے کی ٹیکس ریکوری نہ ہوسکی ، اس ٹیکس میں 41کروڑ12لاکھ روپے کا فراڈ اور غبن کیا گیا ، چار ارب79کروڑروپے کے سیلز ٹیکس ریفنڈز کی غلط ادائیگیوں کے باعث سرکاری ریونیو کو نقصان ہوا، پانچ ارب40کروڑ روپے کی ٹیکسوں اور ڈیوٹی میں غیر ضروری چھوٹ اور رعایتیں دینے سے قومی خزانے کا نقصان ہوا، ٹیکس ڈیمانڈ کے مطابق 107ارب88کروڑ91لاکھ روپے کی ریکوری نہیں کی گئی ، 13ارب9کروڑر وپے کے ٹیکس کریڈٹ کے غلط دعوے کیے گئے جس سے قومی خزانے کو ریونیو کی مد میں نقصان ہوا، 11ارب62کروڑ روپے کے ودہولڈنگ ٹیکس کی کٹوتی نہیں کی گئی ، ایف بی آر کی جانب سے تین ارب77کروڑ22لاکھ روپے کا سپرٹیکس کم جمع کیاگیا ، ان پٹ ٹیکس کریڈٹ کے کی غلط ایڈجسٹمنٹ کے باعث 18ارب96کروڑ روپے کی کم ریکوری کی گئی ، 12ارب35کروڑ روپے کے سیلز ٹیکس کی ود ہولڈنگ نہیں کی گئی ، تین ارب86کروڑر وپے کے ان پٹ ٹیکس کی عدم تقسیم کے باعث سیلز ٹیکس کی کم ریکوری ، مختلف اشیاءاور خدمات پر ایک ارب42کروڑ روپے کی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی نہیں لی گئی۔یہ ساری ”کارکردگی“ ایف بی آر کی ہے۔ جو کسی بھی مالی سال میں اپنے اہداف کے قریب بھی نہ آسکا۔
چلیں !آپ پچھلے سال کی آڈٹ رپورٹ کو چھوڑیں،،، رواں مالی سال ہی کو دیکھ لیں،،، 3 ہزار سے زائد نوٹسز کی میعاد گزرنے کے باوجود 80 ارب روپے کی ریکوری نہیں ہوسکی، 1173 ٹیکس دہندگان کی آمدنی پر درست حساب نہ ہونے سے 104 ارب روپے انکم ٹیکس کا نقصان ہوا۔519 ٹیکس نادہندگان نے 41 ارب روپے ودہولڈنگ ٹیکس ادا نہیں کیا، ودہولڈنگ ٹیکس کی چوری پر ایف بی آر نے ٹیکس نادہندگان کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا۔ ریٹیلرز، ہول سیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز کے انکم ٹیکس ادا نہ کرنے سے ایف بی آر کو 9 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ جب کسی ٹیکس آفسیر سے آپ یہ سوالات پوچھیں تو وہ اپنی غلطی کبھی نہیں مانے گا بلکہ اُس کی ڈیمانڈز آپ کو پریشان کر دیں گی کہ بقول شاعر
انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند
کیسی انوکھی بات رے
بات دراصل یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ یہ ”مسئلہ“ ہمارے تمام اداروں کا مشترکہ ہے۔ جیسے گزشتہ سال ستمبر میں سندھ حکومت کی جانب سے 138 ڈبل کیبن لگژری گاڑیوں کی خریداری کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کا جواز دیتے ہوئے صوبائی حکومت نے کہا تھا کہ یہ گاڑیاں اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے خریدی جا رہی ہیں تاکہ وہ فیلڈ میں امن و امان اور دوسرے امور کی انجام دہی کر سکیں۔لہٰذاایف بی آر کی جانب سے بھی اب فیلڈ اہلکاروں کی جانب سے زیادہ ٹیکس وصولی کے لیے کام کرنے کا جواز دیا گیا ہے۔ ویسے تو یہ جواز جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، مشرف دور میں بھی پیش کیا جاتا رہا ہے، جب ایف بی آر کی جانب سے جیپیں خریدنے کا فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس سے زیادہ ٹیکس وصولی ہو گی۔لیکن نتیجہ وہی صفر بٹہ صفر نکلا۔
درحقیقت ہمیں شاید کوئی یہ بتانے والا نہیں ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ٹیکس کولیکشن کا سسٹم ”آٹو“ پر چل رہا ہے۔ کہ جب آپ کی فیکٹری سے کوئی چیز بن کر نکلتی ہے، تب سے لے کر Endیوزر کے پاس پہنچنے تک ٹیکس کے جتنے بھی مراحل آتے ہیں، وہ سبھی کمپیوٹرائزڈ ہوتے ہیں، اور آٹومیٹک ٹیکس کٹوتی بھی ہوتی ہے، اور ساتھ کمپنی کے کھاتے میں بھی لکھا جاتا ہے کہ اُس نے فلاں مالی سال میں کتنے ارب روپے کی پراڈکٹس تیار کیں، اُس میں سے اُسے کتنی آمدن ہوئی اور پھر اُس حساب سے اُس پر ٹیکس لگا دیا جاتا ہے، جبکہ یہاں معاملات ہی سارے اُلٹ ہیں۔ کہ جب آپ کا ٹیکس ریکوری آفیسر نئی نویلی گاڑی میں بالمشافہ کسی سے ملنے جائے گا اور وہاں مبینہ طور پر(جیسے بہت سے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں) کمپنی مالکان سے ملی بھگت کرکے قومی خزانے کو مزید نقصان پہنچانے کا باعث بنے گا۔ اسی لیے تو میں اکثر کہتا ہوں کہ نہ جانے ہمیں کیا تکلیف ہے کہ ہم اُن طریقوں پر عمل پیرا ہو کر بہت خوش ہوتے ہیں جو مغرب نے آج سے 20سال پہلے ترک کر دیے تھے۔ وہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے طریقے ہوں یا Manualٹیکس کولیکشن کے طریقہ کار۔ ترقی یافتہ ممالک نے ان سب کو ترک کر دیا ہے،،، جبکہ ہم نے اسے سینے کے ساتھ لگا رکھا ہے۔ لہٰذاکفایت شعاری مہم کو اپنائیں، اور اُس شاہی نظام سے چھٹکارہ حاصل کریں جس کے مطابق ہمارا ایک مائنڈ سیٹ بن چکا ہے، ہم نے بڑی بڑی کاروں میں بیٹھ کر ہی فیلڈ ورک کرنا ہے، ورنہ ہماری طرف سے جواب ہے!
بہرکیف بات گاڑیوں کے خریدنے یا نہ خریدنے کی نہیں ہے، اور پھر اتنی بڑی ٹیکس ریکوری میں یہ باتیں معنی بھی نہیں رکھتیں مگر جس ملک میں آپ چند کروڑ ڈالر کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہوں وہاں ایسے شاہی اخراجات کا کوئی تُک نہیں بنتا۔ اور رہی بات عوام کی تو میرے خیال میں ٹیکس چور عوام نہیں ہے،،، بلکہ اُن سے ٹیکس وصول کرنے کا طریقہ کار غلط ہے،،، یعنی حکومت عوام سے اس وقت دو قسم کے ٹیکس وصول کر رہی ہے، پہلا ڈائریکٹ ٹیکس اور دوسرا ان ڈائرکٹ ٹیکس ۔ انکم ٹیکس ، کارپوریٹ ٹیکس اور پراپرٹی ٹیکس ”ڈائرکٹ ٹیکسوں “کی نمایاں مثالیں ہیں۔جبکہ کسٹمز ڈیوٹیاں، سنٹرل ایکسائز ڈیوٹیاں اور سیلز ٹیکس ”ان ڈائرکٹ ٹیکس“ ہیں۔اور پھر اس کے بعد کئی قسم کے نئے ٹیکس بھی دریافت کیے گئے جن میں ودہولڈنگ ٹیکس،ایڈوانسڈ انکم ٹیکس، ایف سی سرچارج، نیلم جہلم سرچارج وغیرہ ۔
اس کے برعکس ترقی یافتہ اور فلاحی ممالک میں حکومتیں ڈائرکٹ ٹیکسوں سے زیادہ رقم حاصل کرتی ہیں۔بلکہ ان کی 75 فیصد آمدن ڈائرکٹ ٹیکسوں پہ مشتمل ہے۔یہ منصفانہ اور انسان دوست ٹیکس نظام ہے۔وجہ یہ کہ ان ملکوں میں جس شہری کی آمدن جتنی زیادہ ہو، وہ اتنا ہی زیادہ انکم ٹیکس یا کارپوریٹ ٹیکس دیتا ہے۔یوں حکومت امرا سے بیشتر رقم اکھٹی کرتی ہے اور کم آمدن والے شہریوں پر مالی بوجھ نہیں پڑتا۔ان ڈائرکٹ ٹیکس مگر امیر اور غریب کے مابین تمیز نہیں کرتے۔ایک ارب پتی بھی اتنے ہی ڈائرکٹ ٹیکس دے گا جتنے چند ہزار ڈالر ماہانہ کمانے والا غریب(مغربی معیار زندگی کے لحاظ سے)ادا کرتا ہے۔گویا ان ڈائرکٹ ٹیکس غیر منصفانہ ہیں ۔ یعنی قصہ مختصر کہ ہمارا ٹیکس کولیکشن کانظام سرے سے ہی غلط ہے۔ تبھی ہم پاکستان میں ٹیکس کولیکشن کے حوالے سے رینکنگ کا جائزہ لیں تو ہم دنیا کے آخری نمبروں پر Surviveکررہے ہیں ، مثلاَ ایک رینکنگ میں ہم 80ممالک کی فہرست میں 77ویں نمبر پر ہیں، یعنی اس قدر خراب صورتحال میں ہم ٹیکس کولیکشن کرتے ہیں کہ دنیا کی کئی رینکنگ میں ہمارا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ اور رہی موجودہ حکومت کی بات تو مجھے کسی نے گزشتہ روز ایک سوال کیا کہ ڈھلوں صاحب کیا اٹک میں لاکھوں ٹن سونے کے نئے ذخائر دریافت ہوئے ہیں،،، میں نے جواب دیا کہ ”ن لیگ دور میں ایسے ذخائر دریافت ہوتے ہی رہتے ہیں“ ! مطلب! ن لیگ ہمیشہ کاسمیٹکس پراجیکٹ کرتی ہے، خواہ وہ سرکاری ملازمین کے لیے ہوں، یا عوام کے لیے ۔ ایسے پراجیکٹس جن میں ان کی تشہیر ہو یہ بہت اچھے سے لانچ کرتے ہیں۔ اب ان ایک ہزار سے زائد گاڑیوں پر یہ اپنی تصویروں کے سٹیکر لگوائیں گے اور بتائیں کہ ہم ریکارڈ ٹیکس اکٹھا کر رہے ہیں،،، وغیرہ وغیرہ ۔ جبکہ آپ ایک ”تاجر حکومت“ سے کتنی اچھی توقعات رکھ سکتے ہیں۔۔۔ کیوں کہ ان کی اپنی ”کاروباری مجبوریاں“ بھی ہر حکومت کا خاصہ رہی ہیں۔ جیسے مجھے یاد ہے کہ نواز شریف کے دوسرے دور یعنی 1997ءمیں بھی یہی مسئلہ تھا کہ عوام ٹیکس ادا نہیں کرتے اُس وقت اسحاق ڈار نے اپنے قائد نواز شریف سے سہمے سہمے انداز میں ایک لمبی چوڑی مشق کے بعد نتیجہ نکالا کہ پاکستان کی بیشتر صنعتیں اور تمام بڑے کاشتکار ٹیکس نہیں دیتے۔ اس کے بعد فیکٹریوں کے دورے ہوئے، فہرستیں بنیں اور پھر مذاکرات کا مرحلہ شروع ہوا۔زرعی ٹیکس کے لیے زمینوں کی زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم حدود پر بحث شروع ہوئی، بڑے زمینداروں نے نئے کاغذ بنانا شروع کر دیے اور زرعی اراضی کا سروے شروع کیا گیا کہ کتنا ٹیکس اکٹھا کرنے کی گنجائش ہے۔حسب توقع صنعتکاروں نے ٹیکس بڑھانے اور نئے ٹیکسز دینے سے انکار کیا، زمینداروں کی فصلیں خراب پیداوار دینے لگیں۔ بات بڑھی تو صنعتکار اور تاجر وزیراعظم تک جا پہنچے اور سابق وزیر اعظم چونکہ خود بھی کاروباری تھے۔ اس لیے انہوں نے ”بریک“ لگا دی اور انہی کاروباریوں کو اپنے ساتھ ملا کر معاملات کو اپنے حق میں کرلیا! آپ یہی سے حساب لگالیں کہ پریشر قائم کرنا اور ٹیکس اکٹھا کرنا دو الگ چیزیں ہوتی ہیں جو موجودہ حکومت کے دور میں ممکن ہی نہیں ہے!