محسن گورائیہ
پنجاب قدرتی طور پر اپنے محل وقوع،موسم اور پانچ دریاؤں کے باعث زراعت کا گڑھ ہے،ماضی میں بیرونی حملہ آوروں نے بھی پنجا ب میں زرعی پیداوار ہی کے لئے حملے کئے،انگریز دور میں بھی اس صوبہ کو زرعی پیداوار کے باعث اہمیت حاصل رہی،مگر آج زراعت اور کاشتکار خاص طور پر چھوٹے کاشتکار کو گمبھیر قسم کی مشکلات و مسائل کا سامنا ہے،صنعت و تجارت کے اس دور میں شعبہ زراعت کسی بھی حکومت کے لئے ترجیح نہیں،ہر دور میں زرعی پیداوار میں اضافہ کے لئے اقدامات کی بجائے زرعی اجناس کی درآمد کو ترجیح دی گئی،نتیجے میں زراعت کا شعبہ زبوں حالی اور کسان بد حالی سے دوچار ہوتا گیا،موسمیاتی تبدیلیوں، زرعی اجناس کی کم ہوتی قیمت،بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت نے زرعی شعبے کو سنگین بحران سے دوچار کر دیا ہے،
زرعی ماہرین کا خیال ہے یہ صورتحال آئندہ سالوں میں شدید غذائی بحران کا باعث بن سکتی ہے،واضح رہے کہ ملک بھر کی غذائی ضروریات پنجاب پوری کرتا ہے،اگر بحرانی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو صرف زراعت سے براہ راست وابستہ 40فیصد آبادی ہی بحران کا شکار نہیں ہو گی،بلکہ بالواسطہ وابستہ 30فیصد کے قریب آبادی بھی روز گار سے محروم ہو کر بحران کی زد میں آجائے گی۔
ماضی قریب میں جنوبی پنجاب کپاس کی پیداوار کے لئے آئیڈیل جانا جاتا تھا، ٹیکسٹائل انڈسٹری کا انحصار کپاس کی پیداوار پر ہی تھا،مگر پنجاب حکومت کی عدم دلچسپی سے کپاس کی پیداوار کے علاقوں میں غیر قانونی طور پر شوگر ملز لگا دی گئیں،کسانوں کو مجبور کیا گیا کہ کپاس کی بجائے کماد کی فصل لگائیں،اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کاٹن کی پیداوار میں 64فی صد کمی واقع ہو گئی، پنجاب کے گرم علاقے آم کی پیداوار کے حوالے سے معروف تھے،آم کی بہترین نسلوں کے باغات تھے جن سے ملکی ضرورت بھی پوری ہوتی اور برآمد کر کے بھاری زر مبادلہ بھی حاصل کیا جاتا تھا،مگرآم کی60فی صد فصل موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ضائع ہو گئی،کسانوں کو زرعی اجناس کا معقول معاوضہ نہیں مل رہا،
اس سال تو گندم کی خریداری بھی پنجاب حکومت نے نہیں کی جس کے باعث کسان گندم کی فصل اگا کر نقصان اٹھانے کی بجائے دوسری فصلوں کو ترجیح دیں گے،یوں غذائی بحران کا اندیشہ لاحق ہو جائے گا، پیسے نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹے کاشتکار مناسب مقدار میں کھاد، ادویہ کا استعمال نہیں کر سکیں گے،مہنگا معیاری بیج استعمال کرنے کی بجائے گھر میں پڑا بیج ہی استعمال کریں گے، جس سے گندم کی پیداوار مزید کم ہو گی اور مہنگی گندم درآمد کرنا پڑے گی،یاد رہے کاشتکار پہلے ہی پانی کی قلت، جدید ٹیکنالوجی، مشینری کی کمی، موثر حکومتی زرعی پالیسی کے فقدان اور مناسب تحقیق کے نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں،موثر پالیسی نہ ہونے سے پنجاب کے کسانوں نے اپنی گندم 2200 روپے فی من کے حساب سے بیچی جس سے ان کی پیداواری لاگت بھی پوری نہیں ہو سکی۔
گندم سے بھی بری صورتحال چاول والی فصل کی ہے جس کی قیمت مارکیٹ میں بہت گر گئی ہے،ہائبرڈ چاول کی قیمت جو پچھلے سال 4500 روپے فی من تھی اس میں 1800 روپے فی من تک کمی آچکی ہے،عام طور پر چاول کی کاشت کے وقت زمین ٹھیکے پر لینے والے نقد رقم لے کر کسانوں کے پیچھے ہوتے اب ٹھیکے کی قیمتیں بھی گر گئی ہیں، کسی بھی فصل کی کاشت کاسیزن جب قریب آتا ہے تو ڈی اے پی اور دوسری زرعی مداخلات بلیک میں فروخت ہونا شروع ہو جاتی ہیں، کئی مرتبہ ان کی کوالٹی بھی بہتر نہیں ہوتی۔
موسمیاتی تبدیلیاں زرعی شعبے کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں،اس صورتحال میں ضرورت ہے کسان زیادہ قوت برداشت کے حامل بیجوں کا استعمال کریں اور متفرق فصلوں کا ماڈل اپنائیں، مگر کسانوں کی رہنمائی کی جا رہی ہے نہ موسم کی شدت کا مقابلہ کرنے والے بیج حکومتی سطح پر فراہم کئے جا رہے ہیں، زراعت کے سب سے اہم شعبے لائیو سٹاک کاجی ڈی پی میں حصہ تقریباً15فیصد ہے اس کی وجہ سے ہماری حلال گوشت کی برآمدات بھی بڑھ رہی ہیں، دُکھ بھری حقیقت یہ ہے کہ زراعت سے متعلقہ شعبے کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہے۔یکم جنوری 2025ء سے پنجاب حکومت نے زرعی ٹیکس عائد کر دیاہے، جس سے پنجاب حکومت کو انداز اً 2300 ارب روپے کی آمدن ہوگی یہ دراصل کسان پر اضافی بوجھ، مگر درحقیقت عوام کی جیب پر ایک اور ڈاکہ ہو گا
زرعی ٹیکس کے نفاذسے ہماری زراعت اور کسان دونوں کو بہت زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا اور زرعی بحران کا بھی خدشہ رہے گا،اِس وقت تقریباً 80سے 82فیصد کسانوں کے پاس ساڑھے بارہ ایکڑ سے بھی کم زرعی اراضی ہے اور یہی وہ کاشتکار ہیں جو ہماری زراعت کی ”ریڑھ کی ہڈی“کی حیثیت رکھتے ہیں،بیج کھادزرعی ادویات، زرعی آلات و ٹریکٹر، ٹیوب ویل، ڈیزل اور پٹرول کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں اور اس سے یقینا صنعت کار، سرمایہ کار، تاجر اور مڈل مین بھر پور منافع کما رہے ہیں، حکومت کو چاہئے وہ چھوٹے کاشتکاروں کی سہولت کے لئے ملاوٹ سے پاک بیج، کھاد، زرعی ادویات، زرعی آلات، پٹرول، ڈیزل، بجلی، آب پاشی کے لئے پانی یہ سب سہولتیں رعائتی نرخوں پر فراہم کرے، چھوٹے کسانوں کے لئے زرعی مداخل خریدنے کے لیے زرعی آسان شرائط پر بلاسود قرضے فراہم کرے،محکمہ زراعت کے ماہرین کو پابند کیا جائے کہ وہ بڑے بڑے زمینداروں کے ڈیروں کے چکر لگانے کی بجائے چھوٹے کاشتکار کو کھیتوں میں جاکر مدد اور فنی رہنمائی فراہم کریں تو زرعی خود کفالت کیدیرینہ خواب کو تعبیر مل سکتی ہے۔
دوسری طرف کاشتکار سمجھتے ہیں کہ حکومت مافیاز پر قابو پانے میں ناکام ہو چکی ہے،تین سال پہلے تک تو کسان کو آٹھ روپے پینتیس پیسے میں بجلی کا یونٹ ملتا تھا،لیکن اب کسانوں کے لئے بجلی کے یونٹ کی قیمت60 روپے فی یونٹ تک پہنچ چکی ہے، جبکہ بھارتی پنجاب میں کسانوں کو آٹھ گھنٹے تک بجلی فری ملتی ہے،بھارت میں یوریا بیگ کی قیمت پاکستانی کرنسی میں ایک ہزار روپے کے قریب ہے یہاں اس کی قیمت4600 روپے اور بلیک میں اس کی قیمت پچپن سو روپے ہوتی ہے، وہاں ڈی اے پی کی بوری چار ہزار پاکستانی روپوں میں ملتی ہے ہمارا کسان اس کے لئے چودہ ہزار روپے ادا کرتا ہے ایسے بہت سے مسائل ہیں جن کی وجہ سے شعبہ زراعت ترقی معکوس کا شکار ہے، مگر وزیراعلیٰ پنجاب کو اس سے کوئی غرض ہے نہ صورتحال کی تبدیلی کے لئے کوئی عملی کوشش دکھائی دیتی ہے۔
زرعی معیشت والے اس صوبے میں زراعت کے شعبے کو چلانے والے محکمہ میں پچھلے پانچ سالوں میں نو سیکرٹری تبدیل کر دیے گئے اور کئی سیکرٹریوں کا عرصہ تعیناتی تین اور چار ماہ رہا ،ان حالات میں آپ کس پر ذمہ داری ڈال سکتے ہیں،اس وقت محکمہ زراعت کے سیکرٹری افتخار سہو ایک محنتی افسر ہیں، مگر وزیراعلیٰ مریم نواز کی تصویروں سے سجے اربوں روپے کے پیکیج اور سلوگن ابھی تک تو کسانوں کی حالت بدلتے دکھائی نہیں دے رہے، پنجاب میں جب جب مسلم لیگ(ن) کی حکومت رہی،زراعت بد حال رہی، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔