رؤف کلاسرا
شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان پر 190ملین پائونڈ فیصلے کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ مطلب انہیں کوئی پروا نہیں ہے کہ انہیں اس سکینڈل میں چودہ سال اور ان کی بیگم کو سات برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
صبح سے یہ خبر پڑھ کر سوچ رہا ہوں کہ کیا عمران خان اکیلا ہے جسے اس سکینڈل اور اس پر ہونے والی سزا سے کوئی فرق نہیں پڑا‘ اور وہ مطمئن ہیں؟ کیا صرف اکیلے عمران خان کو شرمندہ ہونا چاہیے؟ کیا آصف علی زرداری یا نواز شریف‘ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو کبھی کوئی فرق پڑا جب ان کے سکینڈلز سامنے آئے تھے کہ اب خان کو پڑے گا؟ ان سب کو چھوڑیں‘ کسی بھی ایک شخص کا نام لیں جسے آج تک کوئی فرق پڑا ہو۔ کیا حاکم بننے کے ان خواہشمندوں کے فالوورز یا ووٹرز کو کبھی فرق پڑا کہ ان کا لیڈر کسی سکینڈل میں ملوث ہے؟ اس نے ان کے اعتبار کا قتل کیا ہے‘ ان کا جو اس پر بھروسہ تھا اسے توڑا ہے؟ جسے وہ بادشاہ سمجھ بیٹھے تھے‘ مہان اور نیک انسان سمجھتے تھے‘ وہ تو ان کی طرح کا ہی عام بندہ نکل آیا جو آتے جاتے دائو لگانے اور مال ہڑپنے پر یقین رکھتا ہے۔ ضرورت پر مذہب کا تڑکا بھی لگا لیتا ہے تاکہ عوام مطمئن رہیں کہ وہ کتنا پارسا انسان ہے۔ وہی فلمی ڈائیلاگ یاد آتا ہے کہ چوری میرا پیشہ‘ نماز میرا ایمان ہے۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ لوگ مذہب کا پرچار اور دو نمبری ایک ساتھ کیسے کر لیتے ہیں؟
لہٰذ شیخ صاحب کا یہ کہنا کہ خان کو فرق نہیں پڑتا‘ اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ ہاں! نئی بات ہوتی اگر عمران خان اس سکینڈل اور سزا پر شرمندہ ہوتے۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے۔ بیٹھ کر سوچتے کہ کیا وہ اس کام کیلئے بائیس برس تک جدوجہد کرتے رہے کہ ایک دن ان کی بیگم کسی سے ساڑھے چار سو کنال زمین‘ بیگم کی سہیلی ڈھائی سو کنال زمین یا پھر اس بندے سے 28کروڑ کیش کے علاوہ ہیرے کی انگوٹھیاں اور دیگر تحائف اپنا حق سمجھ کر لے لے؟ بہت سارے لوگ اس لوٹ مار کا دفاع کرتے ہیں تو میں ان سے اتنا پوچھ لیتا ہوں کہ کتنے لوگ اپنی بیوی کو اجازت دیں گے کہ وہ کسی سے سینکڑوں کنال زمین اور کروڑوں روپے کیش لے؟ کتنے باعزت لوگ یہ اجازت دینے کو تیار ہوں گے؟
سوال یہ ہے کہ کوئی بزنس مین آپ کو کیوں سینکڑوں کنال زمین اور کروڑوں کا کیش دے گا؟ اگر وہ دینا بھی چاہے تو ملک کا وزیراعظم کیوں وہ زمین اور پیسہ لے گا؟ اگر آپ نے کوئی یونیورسٹی بنانی ہی ہے تو آپ ملک کے وزیراعظم ہیں‘ ایک فیصلہ کر کے فنڈز جاری کر دیں اور یونیورسٹی بنوا لیں‘ آپ کو اتنا تردد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا عمران خان وزیراعظم بن کر بھی وہی پرانا کام کر رہے تھے کہ امیر لوگوں سے چندہ اکٹھا کرو؟ ملک کا وزیراعظم اگر اپنے اور اپنی بیوی کے نام پر بنائے گئے ٹرسٹ پر کسی مالدار انسان سے پیسہ لے رہا ہے تو یہ یقینا ایک سکینڈل ہے۔ آپ لاکھ کہتے رہیں کہ اس میں کچھ مالی فائدہ نہیں ہوا‘ کوئی نہیں مانے گا۔کوئی شخص کیونکر تقریباً ایک ارب روپے آپ پر خرچ کرے گا؟ دنیا میں کون آپ کو مفت لنچ کراتا ہے؟ ہم امریکیوں کے اس جملے پر انہیں برا بھلا تو کہتے ہیں کہ دیکھو! کتنی خودغرض بات ہے کہ آپ نے کسی کو کچھ کھلا پلا دیا تو ساتھ اپنا مطلب بھی بیان کر دیا۔ شروع میں مجھے اس محاورے کی سمجھ نہیں آتی تھی کہ بھلا کون کسی کو کھانا اس لیے کھلاتا ہے کہ اس نے کوئی کام نکلوانا ہے۔ اگر کوئی آپ پر کچھ پیسے خرچ کر رہا ہے تو اس کے ذہن میں آپ کا کچھ استعمال ہے۔ مجھے لگتا تھا کسی کو کھلانا پلانا تو ایک خوبصورت انسانی وصف ہے۔ اس سے زیادہ خوبصورت بات کیا ہو سکتی ہے کہ آپ کا دسترخوان وسیع ہو۔ بات دستر خوان کی ہوئی تو دوسری طرف چل پڑے گی لیکن مجھے زندگی میں جن لوگوں کے بڑے دستر خوان دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ ان میں ڈاکٹر ظفر الطاف‘ ارشد شریف‘ میجر عامر‘ میاں عامر محمود صاحب سرفہرست ہیں اور ان سب کو کسی سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ بس یہ دوستوں کو اکٹھا کرکے اور انہیں کھانا کھلا کر خوشی محسوس کرتے تھے؍ کرتے ہیں۔ لیکن امریکیوں کا ماننا ہے کہ اگر کوئی واجبی واقفیت رکھنے والا آپ کو لنچ کرا رہا ہے تو وہ آپ سے ضرور کوئی کام لینا چاہتا ہے‘ مطلب ہر کام کی ایک قیمت ہے۔ اس لنچ کی بھی ایک قیمت ہے‘ جو آپ کو ادا کرنی ہے۔
جب بینظیر بھٹو بیرونِ ملک نیکلس کی شاپنگ کسی اور شخص کے کریڈٹ کارڈ سے کر رہی تھیں تو کیا انہیں علم نہ تھا کہ اس کی کوئی نہ کوئی قیمت ہو گی جو انہیں ادا کرنا پڑ سکتی ہے؟ آصف زرداری صاحب جب ساٹھ ملین ڈالر سکینڈل کا سامنا کر رہے تھے تو اس کی بھی ایک قیمت تھی جو یوسف رضا گیلانی نے ادا کی تھی‘ جب انہوں نے سوئس حکام کو زرداری صاحب کے خلاف کارروائی کیلئے خط لکھنے سے انکار کیا تھا اور افتخار چودھری کی سپریم کورٹ نے انہیں برطرف کر دیا تھا۔ یہ الگ بات کہ اسی افتخار چودھری کا اپنا بیٹا جب ایک سکینڈل میں ملوث نکلا تو اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ سزا محض وہ سیاستدانوں کو دیتے تھے‘ اپنے بیٹے کیلئے معافی تھی‘ جیسے ابھی سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے بیٹے ہنٹر بائیڈن کو معافی دی۔ ویسے ان بڑے عہدے پر بیٹھے لوگوں کی ایک خوبی ہے کہ وہ سزا اور قانون کی عمل داری کا حقدار دوسرے لوگوں اور ان کے بچوں کو سمجھتے ہیں اور اگر اپنا بیٹا کسی جرم یا سکینڈل میں ملوث پایا جائے تو اسے معافی مل جاتی ہے۔ نہ اس سے قانون کو کچھ فرق پڑتا ہے‘ نہ ان بڑے لوگوں کو اور نہ ہی ان کے چاہنے والوں کو۔
وہی بات کہ عمران خان کو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا‘ نہ ان کے نزدیک یہ کوئی بڑی بات ہے کہ وزیراعظم ہو کر وہ کسی بزنس مین سے کروڑوں روپے کا فائدہ لے رہے تھے۔ ان کے نزدیک یہ کوئی جرم نہیں کہ وزیراعظم کی بیوی ٹرسٹ کے نام پر کسی سے زمین یا کیش پکڑ لے یا ہیرے کی انگوٹھیاں تحفے کے طور پر لے۔ اگر آپ اس تحفے کو جائز اور اپنا حق سمجھتے ہیں تو پھر سرعام لیں‘ سب کے سامنے لیں بلکہ آپ کو شفافیت کے نام پر اس پوری ڈیل کی پریس ریلیز جاری کرنی چاہیے کہ دیکھیں ہم فلاں چیزیں‘ ہیرے‘ جواہرات‘ سونا چاندی‘ کیش اور زمین‘ سب کچھ لے رہے ہیں۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ سب کچھ جائز ہے تو پھر پوری ڈیل‘ چندہ‘ زمین‘ ہیرے جواہرات اور انگوٹھیاں کیوں چھپا رہے ہیں؟ یہ خبر تو اخبار میں بریک ہوئی تو لوگوں کو پتا چلا کہ کیا واردات ڈالی گئی ہے۔ اکثر بڑے لوگوں کا خیال بلکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ کوئی بھی واردات کرتے رہیں‘ کسی کو کچھ پتا نہیں چلے گا۔ شریف خاندان نے 1992ء میں جو آف شور کمپنیاں یہ سوچ کر بنائی تھیں کہ ان کا کسی کو پتا نہیں چلے گا‘ وہ چوبیس سال بعد 2016ء میں سامنے آ گئیں۔ آصف زرداری کو بھی یقین تھا کہ ان کے ساٹھ ملین ڈالرز کا کسی کو علم نہیں ہوگا۔ بینظیر بھٹو بھی سرے محل کے حوالے سے انکاری رہیں کہ یہ ان کی ملکیت ہے۔ بعد میں اسے بیچ کر دبئی میں ایک اور محل خریدا گیا مگر اس میں وہ چند ماہ بھی نہ رہ سکیں۔ اب عمران خان اور ان کی اہلیہ بھی یہی سوچ کر ٹرسٹ بنا کر کروڑوں روپے لیے بیٹھے تھے کہ یہ راز ہمیشہ راز ہی رہے گا۔ ہم سب کو دوسروں کے راز سامنے آتے اچھے لگتے ہیں لیکن جب اپنے راز سامنے آ جائیں تو ہم کہتے ہیں ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جو کہتے ہیں کہ انہیں اس سے فرق نہیں پڑتا‘ ان کے لیے عرض ہے کہ کسی بندے کی پشت پر درخت اُگ آیا‘ لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا تو وہ ہنس کر بولا: ارے بیوقوفو! تمہیں اس درخت کی شان اور کرامات کا کیا علم۔ اگلے سال میں اس کی چھائوں میں بیٹھا کروں گا۔